تعآج کے آرٹیکل میں جانیں گے کس طرح تعصب انسان کو فرقہ واریت تک لے آتا ہے ، صب اور فرقہ واریت ہے کیا؟ قرآن اس کو ختم کرنے کے متعلق کیا تجاویز پیش کرتا ہے؟ اور ہم خود کو اس سے کیسے نکال سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو اس فتنے سے کیسے بچا سکتے ہیں ؟
تعصب کیا ہے ؟
تعصب ایک طرح کا احساس برتری ہے جس میں انسان کو لگتا ہے کہ اسکی سوچ ،ذات،خاندان عمل گویا اس سے جڑی ہر چیز درست ہے بلکہ دوسرے سے بہتر ہے یہی سوچ تعصب کہلاتی ہے ۔
فرقہ واریت کیا ہے ؟
فرقہ ایک گروہ کو کہتے ہیں جس کے تمام افراد ایک نظریہ پر متفق ہوں اور اس سوچ کی عکاسی کریں۔
فرقہ واریت اور تعصب کا کیا تعلق ہے ؟
فرقہ واریت اس وقت تک اتنی نقصان دہ نہیں ہوتی جب تک ہم دوسرے گروہ کو اختلاف رائے کا حق دیں مگر جب اس میں تعصب شامل ہو جائے کہ خود کو برتر اور دوسروں کی رائے کو کمتر لیا جائے اور خلاف حق سمجھ کر اپنی سوچ مسلط کریں تو یہ نقصان دہ ہوتا ہے ۔
انفرادی سطح پر فرقہ واریت کو کیسے ختم کریں؟
اس حل کیلئے میں نے قرآن کریم کی سورۃ آل عمران سے آیت 64۔
Surat No 3 : سورة آل عمران – Ayat No 64
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی؎ کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۶۴﴾
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں ، نہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں ، پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں
فرقہ واریت کا خاتمہ:
اصول نمبر1
ان چیزوں پر بات کریں جو انکے اور آ پ کے درمیان ایک جیسی ہیں ۔
ضروری نہیں کہ جب بھی مل کر بیٹھا جائے تو اختلافات ہی زیر بحث ہوں ۔ اللّٰہ کی ذات،اسکی صفات اور احسانات ایک ایسا ٹاپک ہے جس میں کسی کو اعتراض نہیں نہ ہی اختلاف اور قرآن کریم میں اس کی مثالیں کئی جگہ موجود ہیں ۔ اس آیت میں بھی اس بات کا ذکر ہے
(قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ_آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے)
اصول نمبر 2
اپنی عاجزی اور محبت کا پہلا حق اللّٰہ کو دیں ۔
جیسے اس آیت میں فرمایا: (اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ_کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں)
عبادت میں 2 چیزیں شامل ہوتی ہیں ” انتہائی عاجزی اور انتہائی محبت
جب انسان کے اندر صحیح معنوں میں عبادت کے راز کو جان لیتا ہے تو وہ دوسروں کے فیصلوں کو اللّٰہ کے فیصلے اور بات پر فوقیت نہیں دیتا ۔ جبکہ فرقہ واریت میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان دوسرے کی محبت یا مرعوب ہو کر دین کی چند باتوں میں شدت اختیار کر جاتا ہے اور اس سے ایک فرقہ کا جنم ہوتا ہے ۔لہذا ، دین کے کسی معاملے میں فیصلہ کرتے وقت سوچیں کہ یہ کام کیوں کر رہی ہوں ؟
کہا دلیل کی بنیاد پر ؟
یا کسی کی محبت اور مرعوبیت میں؟
یا اس کے پیچھے اللّٰہ کا حکم ہے؟
اصول نمبر 3
اللّٰہ کے فیصلے کے برابر کسی کو نہ رکھیں ۔کبھی اللّٰہ کی مان لی اور کبھی نفس یا حالات کی،یہ رویہ درست نہیں ۔
آیت میں آتا ہے
وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا_نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں
انسان کی زندگی میں ترجیحات کی بہت سی اقسام ہیں جس میں ذات،قبیلہ ،مال اور رسم و رواج آجاتے ہیں ۔
انسان دوسروں کے بیچ قابل قبول ہونے کے لیے کبھی دین کے رستے پر ہوتا ہے تو کبھی اس کے متضاد رستے پر۔ جب انسان کی زندگی میں ترجیح واضح ہو اور اس میں کشمکش نہ رہے تو ایسا شخص فرقہ واریت کا شکار نہیں ہوتا۔
اصول نمبر 4
اندھی تقلید نہ کریں ۔
دلیل کی بنیاد پر کسی بات پر یقین اور عمل کریں ۔کسی انسان کی اتباع محض یہ سوچ کر نہ کریں اس کا خاندان نامور ہے اور نہ اسکی شخصیت سے مرعوب ہو کر ،خواہ وہ انسان پڑھا لکھا ہی کیوں نہ ہو مگر دین کی بات میں دلیل ضرور مانگیں خصوصا تب جب آپ دین کے نام پر کوئی ایسا عمل دیکھیں جس کی اصل قرآن کریم ،سنت اور صحابہ کرام سے نہ ملے۔
آیت کے اس حصہ میں فرقہ واریت سے نجات کا یہی موثر طریقہ بتایا گیا ہے
وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ_نہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں
ایک دوسرے کو رب بنانے سے مراد ہے کہ کسی انسان کے حکم کو خدا کا درجہ دے دیا جائے اس کے حلال اور حرام کو دین سمجھ کر فالو کریں ۔
فرقہ واریت اور عقل کا تقاضا
فرقہ واریت میں مبتلا اشخاص کے اندر آپ نے یہ ملاحظہ کیا ہو گا کہ وہ خود کو ان سے منسوب کرکے خود پر فخر کرتے ہیں ۔ان کی کرامت کو زیر بحث لائیں گے اور بات مقابلہ بازی تک جا پہنچتی ہے اور آخر میں غلو پر اختتام ہوتا ہے ۔
غلو کیا ہے؟
غلو میں انسان پیغمبر ،بزرگان اور اہم شخصیات کی شان ایسے بیان کریں گے ان کو اتنا بلند مقام دے دیں گے کہ اللّٰہ کے برابر لے آئیں گے۔
آج افسوس ہے کہ مسلمہ میں بھی فرقہ واریت غلو کی شکل اختیار کر گئی ہے
عقل، فرقہ واریت کی صورتحال میں کیا سجھاتی ہے ؟
اس کیلئے انتخاب کیا ہے
Surat No 3 : سورة آل عمران – Ayat No 65
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَتِ التَّوۡرٰىۃُ وَ الۡاِنۡجِیۡلُ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۵
اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کی بابت کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات و انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟
عقل کا پہلا تقاضا ہے
جس بات کے متعلق آپ کو پورا علم نہ ہو اس پر بحث کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ جاہل انسان بحث کرتا ہے جبکہ عقلمند اور اہل علم انسان اپنی بات کو پیش کر کے دوسرے کو اس کی رائے اختیار کر نے کا حق دیتا ہے ناکہ اپنا فیصلہ مسلط کرتا ہے ۔جیسے اس مذکورہ آیت میں اللّٰہ پاک نے یہودی و عیسائیوں کو سمجھایا ۔
ان کی بحث یہ تھی کہ یہودی کہتے حضرت ابرہیم علیہ السلامان کے دین پر تھے یعنی یہودی تھے اور عیسائی کہتے کہ وہ عیسائی تھے ۔ اللّٰہ نے بڑی فیصلہ کن بات کی کہ کوئی بھی دین کتاب اور رسول کے آنے سے ہوتا ہے اور تورات اور انجیل تو اللّٰہ نے بعد میں نازل کی ،ابراھیم علیہ السلام تو ان سے کئی سال پہلے آئے تو دونوں ان کے اپنے دین میں ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہو؟
ایک اندازے کے مطابق حضرت ابرہیم علیہ السلام سے حضرت موسیٰ کے مبعوث ہونے کا فاصلہ ایک ہزار سال کا ہے اور حضرت ابرہیم سے حضرت عیسیٰ کا دو ہزار سالوں کا ہے ۔
Surat No 3 : سورة آل عمران – Ayat No 66
ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ حَاجَجۡتُمۡ فِیۡمَا لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡمَا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
سُنو! تم لوگ اس میں جھگڑ چکے جس کا تمہیں علم تھا پھر اب اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ؟اور اللہ تعالٰی جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔
عقل کا دوسرا تقاضا
کسی بھی کام یا فرقہ کی حمایت یا تنقید کرنی ہو تو پہلے اس کا پورا علم حاصل کریں ۔ آپکی بحث کا مقصد اپنے موقف کو اعلیٰ اور دوسرے کو کمتر ثابت کرنا یا دوسرے کو کافر اور خود کو مومن ثابت کرنا نہ ہو ۔
اگر آپ کے پاس علم نہیں تو خاموش رہیں ۔ امت مسلمہ میں فرقہ واریت کی آڑ میں پیدا ہوئی دشمنی اسی بلا وجہ کی بحث کی وجہ سے ہے ۔
کیا صحابہ کرام میں اختلاف ہوتا تھا ؟ کیا ان میں بھی فرقہ واریت موجود تھی؟
جی ہاں! صحابہ کرام میں بھی آپس میں دین کی بہت سی چیزوں پر اختلاف ہوتا تھا یعنی ایک دوسرے سے الگ سوچ اور نظریہ رکھتے تھے مگر وہ اس بنیاد پر اپنا الگ فرقہ بنا کر نہیں گئے ۔نہ اپنے نظریے پر الگ مسجد بنا کر علیحدہ ہوئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مثلاً اگر کسی نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو وضو کے اعضاء ایک بار دھوتے دیکھا ہے اور دوسرے نے تین بار تو وہ اس بنیاد پر دوسرے کو غلط نہیں کہتے تھے بلکہ اس بات کی دلیل پوچھتے ، اگر صحیح دلیل موجود ہوتی تو خود بھی عمل کرتے اگر کسی بات پر دونوں طرف عمل کی دلیل ہوتی تو خاموش ہو جاتے۔ گویا انہوں نے دوسرے کو بھی اختلاف رائے کا حق دیا اور خود اپنے طریقے پر قائم رہے ۔
یہی وہ کردار ہے جو آج ہماری امت میں نا پید ہو گیا ہے۔