اکھٹے مل کر کام کیسے کیا جائے ؟

مسلم امت میں جن خصوصیات کی کمی پائی جاتی ہے اس میں ایک مل کر کام کرنا بھی شامل ہے ۔آج آپ کو قرآن مجید سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کے ساتھیوں کے وہ اہم نقاط بتاؤں گی جس کی بدولت ان کا دین حق کا مشن آج تک قائم ہے جبکہ انکو آسمان کی طرف جب اٹھایا گیا تب ان کے حواریوں کی تعداد صرف بارہ 12 تھی۔ اگر آپ ایک اچھا ٹیم ورک کرنا چاہتے ہیں خواہ دینی یا دنیاوی مشن کیلئے تو ان اصولوں پر ضرور عمل کریں ۔

 

اس کیلئے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 52 کا چناؤ کیا ہے ۔

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚ وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۵۲﴾

 پھر جب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) نے ان کا کفر محسوس کرلیا تو کہنے لگے اللہ تعالٰی کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالٰی کی راہ کے مددگار ہیں ہم اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں ۔

اصول نمبر 1 :

جب کسی دنیاوی ترقی یا اصلاحی مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں اور بڑے پیمانے پر تک لے جانا چاہتے ہیں تو پہلے اس کام کو خود کریں ۔

کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آتے ہی پارٹی بنانا شروع نہیں کر دی تھی بلکہ پہلے اس انسانوں کی دنیا اور آخرت کی اصلاح کا کام پہلے خود کیا پھر ان کے کام کے معیار اور لگن دیکھ کر دوسرے لوگ خود شامل ہوئے ۔

اسی بات کا اشارہ اس آیت کے ایک لفظ ( فَلَمَّاۤ- پھر جب ) میں دیا گیا ہے ۔ یعنی کوئی کام جاری تھا اس کے بعد دوستوں کو شامل کیا ۔

 اصول نمبر 2 :

 ہمیں کب ٹیم بنانی چاہیے

  آپ کے اپنے مقصد کو جتنا بہتر آپ سنبھال سکتے ہیں اتنا کوئی دوسرا نہیں کر سکتا مگر جب آپکو اس بات کا یقین ہو کہ یہ کام انسانیت کی بھلائی کیلئے ہے اور آپ کے دشمن بھی ہیں جو آپکو کامیاب ہوتے نہیں دیکھ سکتے تو اس کام کو انجام تک پہنچانے کیلئے ان لوگوں کو اس زمہ داری میں ساتھ شامل کریں جیسے اس آیت میں ذکر ہے (فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ_پھر جب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) نے ان کا کفر محسوس کیا ۔

اصول نمبر 3:

جب لوگوں کو کسی بات یا کام کیلئے اکھٹا کریں تو مقصد کو واضح کریں ۔ جتنا کام کرنے کی وجہ واضح ہو گی ،بنیاد اتنی پکی ہو گی اور استقامت بھی ملے گی۔

جیسے یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا( قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ_تو کہنے لگے اللہ تعالٰی کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے )

• حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی مدد کو نہیں بلایا بلکہ مقصد کی طرف پکار لگائی ۔ کیونکہ ہر بے غرض کام کے اجر کا صلہ اللّٰہ سے رکھا جاتا ہے یا آخرت سے اور یہ کسی بھی کام کی بہت پکی بنیادیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو کام متاثر ہوتا ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی بنیاد اسی پر قائم تھی اور یہ اتنی مضبوط بنیاد ہے کہ اس کی بدولت عیسائیت آج بھی زندہ ہے ۔

اصول نمبر 4:

کام کی شروعات پر لیڈر اور ٹیم دونوں اس بات کا اقرار کریں کہ کام پر اور شرائط پر رضامند ہیں جیسے حلف برداری ۔ٹیم ایک طرح سے خود بھی یہ اقرار کرے کہ وہ یہ کام دنیاوی غرض سے نہیں کر رہی ۔ اگر معاملہ دنیاوی مشن کا ہے تو انسان اقرار کرے کہ اسے صرف اتنا نفع مقصود ہے جتنا اس کا حق ہے ،لالچ نہ ہو اور انسانیت کی خیر مطلوب ہو ۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے حلف اٹھا (قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ_حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالٰی کی راہ کے مددگار ہیں)

اصول نمبر 5:

کام / مشن کی ابتداء سے پہلے وفاداری کا مکمل یقین کر لیں ۔ شک و شبہات نہ رہیں ۔

اس آیت میں حواری حلف برداری کے بعد اللّٰہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ، کیوں ؟ اللّٰہ کی راہ میں مدد کا وعدہ کر لیا تو اب یہ دعویٰ کیسا ہے ؟

مثلاً ، ایک سوال ہے ۔

اگر آپ کسی کی طرف سے مقصد کے حصول کیلئے مددگار ہوں اور آپ کو اس انسان پر یا اس کی ذات یا کام کی نوعیت پر یقین نہ اور آپ کام شروع کر دیں تو کہا ہو گا؟

آپ قدم قدم پر شبہات کا شکار ہوں گے، کبھی وسوسے کبھی حالات ۔ اس طرح دو کام ہوں گے ، یا تو آپ بہت جلد اس کام کو چھوڑ بیٹھیں گے یا پھر کام تو جاری رہے گا مگر اس کی کوالٹی متاثر ہو گی ۔

جیسے ، لیڈر کی ذات یا کام کو لے کر دل میں شک آیا تو آپ کام کو چھوڑ کر اس انسان کی تحقیق میں لگ جائیں گے آپکی توجہ دوسری طرف چلی جائیں گی اور ایسا بار بار ہونے سے کام کی کوالٹی متاثر ہو گی اور نتیجہ صفر ہو گا ۔

حواریوں نے جو کہا ( اٰمَنَّا بِاللّٰہِ_ ہم اللہ تعالٰی پر ایمان لائے ) مراد اللّٰہ کو دل سے مان ۔ کیا مانا؟ کہ اللّٰہ کی ذات قابل بھروسہ ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ذندہ ہے اور رہے گا وہ اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں اس کا ہر فیصلہ بہترین ہے

 اور دوسرا آخرت کا یقین کہ میرے بس میں محنت کرنا ہے اور نتیجہ اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے دنیا میں اگر نہ بھی سہی تو آخرت میں ملے گا ۔

 یہ اصول انسان کو استقامت دیتا ہے۔

اصول نمبر 6:

کاموں اور زمہ داریوں کو تقسیم کیا جائے، ہر شخص اپنا کام پوری امانتدار سے کرے بغیر کسی اعتراض کے۔

کیونکہ حواریوں نے دعویٰ کیا تھا (وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ _اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں )

مسلم اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کی نکیال اس کے مالک کے ہاتھ میں ہو اور وہ اسے جہاں چاہے لے جائے۔

کامیاب ٹیم ورک کیلئے اپنے لیڈر پر اس درجہ بھروسہ ہونا ضروری ہے ۔

کامیاب ٹیم ورک کیلئے ،اچھے ٹیم ممبرز کی خصوصیات ۔

ایک لیڈر کو اپنی ٹیم تشکیل دیتے وقت اپنے ٹیم ممبرز میں ان خصوصیات کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے ۔

ہی وہ خصوصیات ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں نمایاں تھیں ۔

اس کا ذکر سورہ آل عمران آیت 53 میں ملتا ہے ۔

رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ وَ اتَّبَعۡنَا الرَّسُوۡلَ فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۵۳﴾

 اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اُتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی پس تُو ہمیں گواہوں میں لکھ لے ۔

پہلی خاصیت :

آپکے انتخاب کردہ ممبر “مثبت سوچ” کا حامل ہو ۔ اس کا دل انتقامی کارروائیوں اور منفی سوچ کا حامل نہ ہو ۔ بلکہ اس کو آپکے مقصد کی خوب پہچان ہو اور مشکل میں مددگار بھی ثابت ہوں ۔ انہیں خصوصیات کی بناء پر عیسیٰ علیہ السلام کے مددگاروں کو “حواری یعنی سفید دل والے” کہا جاتا ہے ۔

دوسری خاصیت:

ممبر آپکے مقصد اور انکی شرائط سے مکمل آگئ رکھتا ہو اور ان شرائط کو ماننے کا پابند بھی ہو اگر کسی صورت لیڈر موجود نہ ہوں تو جو قانون وہ بنا کر جائے اس پر دل جمی سے کال کرنے والے ہوں گویا ان کے اندر استقامت ہو ۔ لیڈر کے جانے کے بعد وہ بدحواسی کا شکار نہ ہوں ۔اسیخاصیت کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں کیا ہے(رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ_اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اُتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے) یہاں وحی سے مراد وہ احکامات اور شرائط ہیں جو لیڈر دے۔

تیسری خاصیت:

ایسے فرد کو ممبر منتخب کریں جو لیڈر کے تابع رہ کر کام کر سکے۔اگر ٹیم ممبرز ہی لیڈر کو فالو نہ کریں اور اپنی الگ رائے پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ایسا ٹیم ورک کبھی کامیاب نہیں ہو گا ۔جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے(وَ اتَّبَعۡنَا الرَّسُوۡلَ_ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی) گویا حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے تابع رہ کر کام کیا۔

آخری خاصیت:

اگر آپکا مقصد فلاح انسانیت ہے تو ایسے ممبر کا انتخاب کریں جنہیں معاوضے کی امید اللّٰہ اور یوم آخرت سے ہو ۔ایسا انسان پوری دلجمعی سے کام کرے گا ۔ جیسے آیت میں ذکر ہے (فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِ

دِیۡنَ_ پس تُو ہمیں گواہوں میں لکھ لے ۔ )

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top