مصطفی ٹیسٹ دینے کے لیے کلاس کی قطاروں میں لگی اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا جب اس کے کانوں میں ایک آواز آئی۔ اس دفعہ مصطفی امتحانوں میں نیچے سے ٹاپ کرے گا یعنی کہ ڈی گریڈ لے کر پاس ہوگا کیونکہ اتنے دنوں کی طرح آج بھی ٹیچر اور پیپر کو دیکھتے ہی مصطفی سب بھول جائے گا ! ہا ہا ہا ۔۔۔ مصطفی کی دوسری طرف پیپر دینے کے لیے بیٹھے چند لڑکوں کے قہقہوں کی آواز نے مصطفی کو رنجیدہ کیا آج وہ پہلے کی نسبت کافی بہتر تھا اور بابا جان کی سورۃ الناس سمجھانے کے بعد اس کا حوصلہ پہلے سے بلند تھا اور وہ خود پر معوذتین بھی پڑھ کر آیا تھا مگر نہ جانے کیوں ایک خوف سا تھا اگر اسے آج پھر سے سب بھول گیا ،پھر اس کی بےعزتی ہوگی سب اس کو نالائق سمجھیں گے یہ سوچ کر وہ کرسی پر بیٹھا تھا کہ اتنے میں اس کا دوست حاشر آیا حاشر ایک خیال رکھنے والا ذہین اور شرارتی بچہ تھا مگر ذرا سا لاپرواہ تھا
مصطفی سے سلام لینے کے بعد حیرت سے دیکھا اور بولا مصطفی، تمہیں کیا ہوا؟ کہیں اپنی امی سے مار کھا کر تو نہیں آئے؟ ساتھ ہی دانت نکالے ۔
مصطفی نے گھور کر دیکھا!
حاشر بولا : اوہ، اچھا اچھا میں سمجھ گیا ! مار نہیں کھائی ، پھر کیا ہوا ؟
مصطفی بولا: مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ ٹیسٹ میں سب یاد کیا بھول نا جائے ۔
حاشر بولا : او میرے خدایا! یہ کوئی پریشانی کی بات ہے؟ یہ بھائی کس دن کام آئے گا؟ تم پریشان نہ ہو میں سب سنبھال لوں گا !
مصطفی بولا : وہ کیسے ؟
حاشر بولا : ظاہر سی بات ہے, چیٹنگ کر کے !
اور ساتھ ہی یونیفارم کی جیب سے چیٹنگ والی چٹ دکھائی ۔
مصطفی حیرت سے دیکھتے بولا, اللہ کو تو چیٹ نہیں کر سکتے ! وہ سب دیکھتا ہے! ہماری اخرت کے لیے مارکس کٹنگ ہو جائیں گے! مجھے تمہارا ائیڈیا بالکل پسند نہیں آیا! اور ہاں! تم بھی چٹنگ نہیں کرو گے مصطفی نے انگلی دکھا کر اسے وارن کرتے کہا۔
حاشر نے کندھے اچکا کر کہا تمہاری مرضی مگر مجھے ٹیسٹ نہ آیا تو میں ہیلپ لوں گا اور ہاں اگر تمہیں نہ آئے تو میری ہیلپ لے سکتے ہو!
کیونکہ ،بھائی کا دل بہت ۔۔۔۔ کھلا ہے ! چیٹنگ بھی بانٹ کر کرتا ہے ! حاشر نے ایٹیٹیوڈ سے کہا ۔
میں آتا ہوں، یہ کہہ کر مصطفی پرئیر روم میں چلا گیا اس نے اللّٰہ سے مدد مانگنے کا ارادہ کیا ۔
اللّٰہ اکبر کہہ کر نماز شروع کی سورۃ الفلق کی تلاوت شروع کی، سورۃ فلق شروع کرتے ہی اسے اپنے اور نوح بھائی کی بات چیت یاد آئی جو انہوں نے اسکول کے لیے سفر کرتے سکول بس میں کی تھی اسے سکول بس میں سفر کرتے اج کا وہ منظر یاد آیا جس میں نوح بھائی نے اس سورہ الفلق کا مطلب سمجھایا تھا ۔
نوح بولا : مصطفی کیا آپ کو یاد ہے معوذتین کی دوسری سورت کون سی ہے ؟
مصطفی بولا : جی بالکل یاد ہے! وہ سورۃ الفلق ہے۔
نوح بولا: وہ سامنے دیکھو وہ فلق ہے ۔ نوح نے انگلی کا اشارہ کرتے اسے گاڑی کی کھڑکی سے باہر کا منظر دکھایا جہاں سورج طلوع ہو رہا تھا مصطفی یہ منظر تقریبا روز ہی دیکھتا تھا مگر آج وہ اس سورج نکلنے کا منظر کو ایک آیت یعنی اللّٰہ کی نشانی کے طور پر دیکھ رہا تھا۔
نوح بولا: اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پھر پہلی آیت پڑھی ” قل اعوذ برب الفلق ”
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے، کہ میں پروٹیکشن یعنی کہ پناہ لیتا ہوں اللہ کی جو کہ اس فلق کا رب ہے” جانتے ہیں مصطفی اللّٰہ تو ہر چیز کا رب مگر یہاں فلق کو ظاہر کیوں کیا ؟مصطفی نے نہیں میں سر ہلایا۔
چلو تمہیں اس کے ساتھ ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں عربی زبان میں الفابیٹس کے بھی معنی ہوتے ہیں جسے ہم حروف کہتے ہیں جیسے الف ،ب، ف وغیرہ؛ جبکہ انگلش کے الفابیٹس یعنی کہ A,B ,Cکا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ البتہ جب ہم انگلش کے الفابیٹس کو جوڑیں اے بی سی کو تو ایک ورڈ بنتا ہے اور جب ہم وہ ورڈ بولتے ہیں تو ہمیں سمجھ آتی ہے بات کی ،ایسے ہی عربی میں ورڈ کے علاوہ صرف اور صرف حروف کے معنی بھی ہوتے ہیں جن سے سمجھ آ جاتی ہے۔ یعنی” ف ” کے اندر پھٹنے یا پھاڑنے کا مفہوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی چیز پھٹ کر نکلتی ہے اسی طرح فلق وہ وقت ہے جس میں صبح رات کے اندھیرے کو سورج سے روشن کر دیتی ہے اور اندھیرا سارا بھاگ جاتا ہے اس سے اللّٰہ پاک نے ہمیں یہ سمجھایا کہ آپ کی زندگی میں جو بھی پریشانی، غم اور ڈر ہے وہ بھی ایک طرح کا اندھیرا ہے پھر آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا، کہ کیا کرنا ہے؟ اور کیا نہیں کرنا ؟ اتنی مایوسی آتی ہے کہ ہم کچھ سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتے تو اس میں اللّٰہ پاک انسانوں کو کہہ رہے ہیں کہ اے میرے بندے اپ اپنی زندگی کے اندھیروں سے نہ ڈریں اپ کہہ دیں کہ میں اللہ کی پروٹیکشن مانگتا ہوں جو کہ اس فلق کا رب ہے یعنی جیسے اللہ آسمان کو اندھیروں سے نکال کر روشن کر سکتا ہے ایسے ہی وہ میری زندگی میں ہر غم ،دکھ، پریشانی اور مصیبت کو ختم کر کے مجھے امید آرام اور کامیابی دے سکتا ہے۔
مصطفی بولا :او ….میں سمجھ گیا ،یعنی اللہ پاک روز ہمیں یہ روشن صبح دکھا کر یاد کراتے ہیں کہ اندھیرا یعنی جتنی بھی پریشانی والی چیزیں ہیں وہ ہمیشہ نہیں رہتی اللہ پاک آہستہ آہستہ اندھیرے یعنی کہ پریشانیوں کو ختم کر کے ہماری زندگی کو روشنی امید اور گڈلک سے بھر دیتا ہے۔
نوح بولا: جی بالکل ،آپ تو کافی سمجھدار نکلے !
نوح نے مسکرا کر مصطفی کے حوصلہ افزائی۔
تو اب اپ کو جب بھی کسی چیز کا ڈر ہو آپ گھبرائیں گے نہیں، نہ ہی مایوس ہوں گے کیونکہ ہر اندھیرے کے بعد روشن صبح ہوتی ہے ضروری نہیں کہ جیسا ہمارا آج ہے کل بھی ویسا ہو ، اسی لیے پوری امید سے اگلی صبح کا اغاز کریں ۔
پھر اگلی آیت پڑھی
“من شر ما خلق”
“اور ہم ہر اس چیز کے برائی کے شر سے اللہ کی پروٹیکشن لیتے ہیں جو اس نے پیدا کی”
یعنی اللہ نے اپنی جو بھی مخلوق پیدا کی انسان چاند سورج پھول ہر چیز اس میں اچھائی بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ برائی بھی موجود ہوتی ہے یعنی وہ ہمیں نقصان بھی دے سکتے ہیں اگر انسان ہے تو وہ ہمیں غلط طور پر گائیڈ کر سکتے ہیں۔
مصطفی کے ذہن میں اس کا دوست حاشر آیا جو اس غلط چیز ہے یعنی چیٹنگ کی طرف راغب کر رہا تھا ۔
نوح بولا : تو جب ہم اللہ کی پروٹیکشن طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی مخلوق کی برائی کے شر سے ہمیں بچا لے تو وہ ہمیں بچا لیتا ہے، ہمیں برائی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
مصطفی کے ذہن میں برائی کے نام پر وہ چیٹنگ والی چٹ آئی ، یعنی، اگر وہ اللہ تعالی کی پروٹیکشن مانگ لے گا تو اللہ تعالی اس کو چیٹنگ کرنے کا موقع ہی نہیں دیں گے بلکہ اس کو پہلے ہی سب کچھ یاد کروا دیں گے اور بچا لیں گے ۔
نوح نے اگلی ایت پڑھی ۔
“اور میں پناہ طلب کرتا ہوں اللہ کی رات کے شر سے جب وہ چھا جائے ”
رات میں خود کوئی برائی نہیں لیکن انسان زیادہ تر برے کام رات کو کرتا ہے جیسے چو رات کو اندھیرے میں آتا ہے اور موذی جانور بھی رات کو نکلتے ہیں۔
پھر اگلی آیت پڑھی ۔
“اور میں گرہوں پر پھونکیں مارنے والیوں کی شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں”
یعنی ہم اللہ کی پروٹیکشن لیتے ہیں کہ وہ رات کو ہمیں ہر برائی سے محفوظ رکھے ۔رات کا مطلب یہ نہیں کہ دن میں انسان برائی نہیں کرتا مگر زیادہ موقع رات کو ملتا ہے کسی کے متعلق برا سوچنے کا اور ساتھ ہی پھونکے مارنے والیوں سے مراد جادو کے شر ہیں۔ یعنی کوئی ہم پر جادو نہ کرے اس لیے ہم پہلے ہی اللہ کی پروڈکشن میں آ جاتے ہیں ۔
پھر آخر میں۔
” اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے ”
جانتے ہیں مصطفی ، حسد کیا ہوتا ہے؟
مصطفی نے نفی میں سر ہلایا۔
نوح بولا: حسد وہ ہوتا ہے کہ کسی کے پاس کوئی اچھی چیز ہے یا اس کے مارکس اچھے آئے ہیں یا اس کے فرینڈز زیادہ ہیں اور آپ کے پاس یہ سب نہیں اب آپ کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہ سب آپ کے پاس ہو لیکن جب نہیں ملتا تو آپ دل میں یہ خواہش کرتے ہیں کہ اس کے پاس
وہ اچھی چیز گر جائے یا ختم ہو جائے یا اس کے مارکس اچھے نہ آئیں اور اس کے فرینڈز اسے چھوڑ جائیں۔
جب آپ کے دل میں یہ باتیں آتی ہیں تو آپ دوسرے کو اپنی باتوں سے تکلیف دیتے ہیں ظاہر ہے وہ آپ کی اس کی وہ چیز تو نہیں لے سکتے اسی لیے اپ اس کو غلط پہلو دکھا کر یا اس کا مذاق اڑا کر آپ اس کو ڈی گریڈ کرتے ہیں تاکہ وہ اداس یا دکھی ہو جائے اور اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
مصطفی کی ذہن میں کلاس فیلوز کی باتیں گونجیں۔۔۔( اس دفعہ یہ نیچے سے ٹاپ کرے گا ڈی گریڈ لے کر پاس ہوگا کیونکہ اس دفعہ پھر ٹیچر اور پیپر کو دیکھتے سب بھول جائے گا ہاہاہا )
مصطفی نے ساری سورۃ الفلق غور سے پڑھی اللہ پاک سے گائیڈ لائنز حاصل کی دوسری رکعت میں سورۃ الناس پڑھنے کے بعد اب مصطفی پر امید تھا اور وہ جانتا تھا اب اللہ کی مدد اس کے ساتھ ہے وہ دعا مانگ کر کلاس میں گیا
کلاس میں آ کر اس نے چٹ پر کچھ لکھا اس کا فولڈ کر کے ہاتھ میں لیا اور حاشر کے پاس گیا جہاں اب سارے بچے پیپر کے لیے اپنی جگہوں پر بیٹھ رہے تھے حاشر مصطفی کے پیچھے بیٹھا تھا۔
مصطفی نے پکارا : حاشر !
اور ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ گلے ملنے کے انداز میں کھول دیے اور کہا، حاشر میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا !
حاشر دیکھ کر ناسمجھی کے انداز میں مسکرایا کہ اسے کیا ہوا؟ پھر اپنے دوست کے گلے لگ گیا اور بولا ,میں بھی نہیں چھوڑوں گا میرے دوست !
گلے لگنے کے دوران مصطفی نے حاشر کی پینٹ کی پاکٹ سے ایک سفید چٹ نکالی اور اس کی جگہ دوسری ڈال دی ۔اتنے میں کلاس ٹیچر آگئیں۔ مصطفی جلدی سے باسکٹ کے پاس گیا اس میں کچھ گرایا اور سب اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے ،سب بچوں کو پیپر ملا ،سب اپنا پیپر کرنے لگے مصطفی نے بھی اللہ کا نام لے کر پیپر شروع کیا۔ پیپر کی ٹائمنگ ایک گھنٹہ تھی اور اب تک آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔
دو سوال ایسے تھے جس کا جواب حاشر کو نہیں آتا تھا کیونکہ اس نے وہ سبق یاد ہی نہیں کیے تھے ان میں سے ایک کا جواب اس نے چٹ پر لکھا تھا ٹیچر کو دیکھا وہ اپنی چیئر پر بیٹھی تھیں اور سب بچے پوری توجہ سے اپنا پیپر کر رہے تھے۔
یہی موقع ہے !حاشر نے خود سے کہا ,اپنی پاکٹ سے چیٹنگ والی چٹ نکالی۔ وہ چیٹنگ پہلی دفعہ کر رہا تھا کیونکہ اسے یہ مشورہ اس کی کرکٹ ٹیم کے فیلوز نے دیا تھا ۔دھڑکتے دل کے ساتھ چٹ نکالی اور سائیڈ پر کھولی مگر ! ۔۔۔یہ کیا! اس پر کچھ اور لکھا تھا ! اس نے الٹ پلٹ کر حیرانی سے دیکھا یہ وہ والی چٹ تو نہیں تھی!
سارا صفحہ خالی تھا بس دو لائنز لکھی تھی جو کہ یہ تھیں۔
رب زدنی علما
اس نے آنکھیں چھوٹی کر کے غور سے پڑھا کچھ سمجھ نہ آیا پھر نیچے لکھی لائن پڑھی
اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما !
یہ لائن پڑھتے ہی جو بھویں سکیڑ کر بیٹھا تھا، ایک دم سیدھا ہوا اور دماغ میں آدھے گھنٹے پہلے کا منظر گھوما جس میں مصطفی حاشر کے گلے لگ کر مسکرا کر اسے کہہ رہا تھا میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا!
یہ بات وہ اکثر تب دہراتے تھے جب ان میں سے ایک غلط کام کر رہا ہوتا تھا تاکہ وہ ایک دوسرے کو غلط کام سے روک سکیں اور جنت میں دونوں ساتھ جائیں اور خوب مل کر مزے کریں ۔
ایک دم حاشر کو غصہ آیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا:
مصطفی ! مصطفی !
مصطفی ، جو پوری توجہ سے پیپر لکھ رہا تھا، آواز آنے ذرا سی گردن گھما کر پیچھے دیکھا جہاں حاشر آگ بگولا ہوا بیٹھا تھا اور ہاتھ میں سفید چٹ تھی ،چٹ دیکھتے ہی مصطفی کو اچانک زور سے ہنسی آئی جو اس نے ہونٹ دبا کر روکی اور فورا آگے منہ کیا ۔
حاشر پھر سرگوشی میں بولا : تمہیں تو بعد میں پوچھتا ہوں! وہ پیچھے ہو کر بیٹھا اور تو کچھ کر نہیں سکتا تھا مصطفی کی کرسی کی ٹانگ پر ہلکی سی کک ماری البتہ مصطفی نے پیچھے دیکھنے کی جرات نہیں کی تھی کیونکہ اس نے پیچھے بیٹھی دوسری ٹیچر کو ان کے پاس آتے دیکھ لیا تھا ۔
اچانک حاشر کے ہاتھ میں سے ٹیچر نے چٹ لی جس سے وہ بند کر چکا تھا ٹیچر کے پکڑتے یہ حاشر کے چہرے کے رنگ اڑ گئے اس نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا اگر چیٹنگ کرتے پکڑا گیا تو کیا ہوگا؟
ٹیچر نے حاشر سے چٹ لے کر پوچھا، یہ کیا ہے؟
حاشر بولا : ٹی ۔۔۔ ٹیچر جی یہ چیٹ ۔۔۔ مطلب دعا ہے! حاشر نے بوکھلاتے کہا ، اور آس پاس نظر دوڑائی، کچھ بچے حاشر اور ٹیچر کو دیکھ رہے تھے باقی اپنا پیپر کر رہے تھے۔ ٹیچر نے چٹ کھول کر دیکھا اس پر واقعی دعا لکھی تھی۔
ٹیچر نے چٹ پڑھ کر حاشر کو واپس دی اور کہا: بیٹا دعا پیپر سے پہلے پڑھا کرتے ہیں اور ایسے لکھ کر نہیں لاتے۔ آئندہ ایسے مت کیجئے گا ،ٹھیک ہے !
حاشر کی جان میں جانے اور زبردستی مسکراتے کہنے لگا جی ٹیچر آئندہ میں خیال رکھوں گا۔
ٹیچر نے پیپر واپس دیا اور آگے بڑھ گئیں۔
حاشر نے رکا ہوا سانس خارج کیا! آہ۔۔۔۔۔ اور اللہ سے معافی مانگی کہ اس نے بے عزت ہونے سے بچا لیا اور ساتھ ہی شکر ادا کیا ۔
مصطفی نے مسکرا کر پیچھے دیکھا ،حاشر بھی ذرا سا شرمندہ ہوتے مسکرانے لگا سب بچوں نے جب پیپر کر لیا تھا کلاس سے باہر جانے لگے مصطفی پانچ منٹ پہلے پیپر کر کے بعد ریوائز کر کے کلاس سے نکلا اب کی بار حاشر کو جو جواب نہیں آ رہا تھا اس نے چیٹنگ کی بجائے اس کو رہنے دیا اور ٹیچر کو دے کر باہر آیا
حاشر مصطفی کو دیکھتے بولا : جزاک اللہ مصطفی!
مصطفی شرارت سے کہنے لگا :کیا کہا؟ سنائی نہیں دے رہا! ذرا اونچی بولو!حاشر نے مصطفی کے کانوں کے قریب آتے زور سے کہا :جزاک اللہ مصطفی۔۔۔۔!
چیٹنگ سے روکنے کے لیے! سنائی دیا اب ؟
حاشر پوچھنے لگا ۔
مصطفی نے جواب دیا: ہاں، ہاں ،اب سنائی دے گیا !
حاشر کہنے لگا : میں نے کچھ اور بھی کہا تھا!
مصطفی نے ناسمجھی کے انداز میں دیکھا اور کہا: اور کیا کہا تھا ؟ اسے واقعی یاد نہیں تھا ۔
حاشر بولا : میں نے کہا تھا، تمہیں تم نے بعد میں پوچھوں گا اور تم نے کیا کہا تھا؟ تم مجھے چھوڑو گے نہیں!
حاشر نے اس کو یاد دلاتے کہا ۔
مصطفی نے سر ہلا دیا کہ ہاں کہا تھا۔
پھر حاشر اپنی بکس اٹھاتے ہوئے کہنے لگا تمہیں اب میں نہیں چھوڑوں گا، مصطفی !
مصطفی حاشر کے لڑائی کے ارادے سمجھتے اور کتابیں مارنے کے لیے اٹھاتے دیکھ کر ہنستے ہوئے بھاگا اور بولا پہلے پکڑ تو لوپھر چھوڑنا !
حاشر بولا :ارے جاتے کہاں ہو! رکو ذرا ، تمہیں تو میں پکڑ ہی لوں گا!
چھٹی کی گھنٹی بج گئی اور دونوں اپنے اپنے بیگ اٹھاتے ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے لگے ۔
اخلاقی سبق :
جی ہم نے سیکھا ہماری زندگی فلق کی طرح ہے ہر دن امید لے کر آتا ہے اللہ سے مدد مانگ کر اپنا بہترین دینا چاہیے! مایوس نہیں ہونا چاہیے!
اور “ومن شرما خلق” سے یاد رکھنا چاہیے ,کہ آپ کے بیسٹ فرینڈ یا کوئی بڑا جب آپ کو ایسا مشورہ دے کہ جو آپ جانتے ہو کہ غلط ہے تو ان کی بات نہیں ماننی چاہیے بلکہ انکی بھی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے جیسے کہ مصطفی نے کی تھی انہیں غلط نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اللہ کے ہر مخلوق میں اچھائی کے ساتھ برائی بھی ہے ۔
“حاسد اذا حسد ” سے سیکھا کہ کسی کی نعمت دیکھ کر آپ کا دل اسے حاصل کرنے کا کرے تو اللہ سے مانگ لیں اور اس کی نعمت دیکھ کر، ماشاءاللہ بارک اللہ ،کہیں اور یاد رکھیں اگر اللہ نے اسے کوئی نعمت دی ہے تو آپ کو بھی ضرور دی ہوگی جو اس کے پاس نہیں ہو گی ، لہذا اپنی نعمتوں پر غور کر کے اللہ کا شکر ادا کریں اور معوذتین کو زبانی یاد کریں اور صبح و شام تین تین بار پڑھا کریں یہ سنت ہے، آپ ہر طرح کی برائی اور برے حملوں سے محفوظ رہیں گے !
ان شاءاللہ!