ہمارا جذباتی رویہ کس طرح ہمارا ایمان ضائع کر دیتا ہے ۔
آج قرآن مجید کی روشنی میں جانیں گے ، نفسیاتی بیماری شدت پسندی/ جذباتی پن کے متعلق کہ ایک نارمل انسان شدتل پسند کیسے بنتا ہے ؟اس سے ہماری ذاتی اور روحانی زندگی کا کیا نقصان ہوتا ہے
اور یہ بھی کہ ہم میں شدت پسندانہ رویہ کب آتا ہے اور یہ کس طرح سے ہماری شخصیت کو متاثر کرتا ہے
اور جانیں گےکہ اگر ہم میں یہ موجود ہے تو کس کس طرح اس کا علاج قرآن سے ممکن ہے کہ ہم اس کے اثرات کو زائل کرکے دوبار معتدل شخصیت بنیں۔
نفسیاتی بیماری: شدت پسندی۔
قرآن مجید میں انسانی شدت پسندی کو ظاہر کرنے کیلئے بہت سے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں سے ایک ” کفر ” بھی ہے۔
لفظ ” کفر ” میں بنیادی طور پر 3 معنی پائے جاتے ہیں اور یہی معنی کفر کے درجات بھی ہیں ۔
چھپانا
نعمتوں کی نا قدری
دلائل کا انکار
ہمارے اندر شدت پسندی کی ابتداء کچھ ” چھپانے” سے ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے اندر کا “احساس عدم تحفظ ۔”( insecurities ) اور کسی حد تک احساس کمتری کو چھپانا ۔ مثلاً آپ سکول ،کالج ، اپنے آفس یا گھر میں آپکی کارگردگی کا موازنہ ہر وقت دوسروں سے کیا جاتا ہے ۔ یا آپکو ان کو زندگی میں ملنے والی نعمتیں ،وسائل اپنے سے کم لگتے ہیں ۔ یا آ پکی محبوب ترین چیز ،رتبہ یا انسان جسے حصول کی جدوجہد میں ہوتے ہیں وہ کسی اور کو حاصل ہو جائے تب انسان اپنے اندر ایک سوچ پالتا ہے کہ ۔۔۔۔میرے حق میں کمی ہوئی ہے یا شاید میں کسی قابل نہیں یا یہ کہ اللّٰہ میری نہیں سنتا !۔۔۔
یہ سوچ اور شکوہ؛ اس کے چیزوں ،حالات کے دیکھنے کے نظریہ کو تبدیل کر دیتی ہے وہ ہر ایک کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ کون اس کے مقابل کھڑا ہےوہ اس سے نہ چاہتے ہوئے بھی مقابلہ بازی شروع کردیتا ہے اسے کسی کی سادہ بات بھی زومعنی یا طعنہ لگتی ہے ہر وقت بس اپنی محرومیوں کا خیال اسے ناشکرا بنا دیتا ہے
۔صرف ایک کمپلکس آپکی شخصیت بگاڑنے لگتا ہے ۔
یہ سوچ نعمتوں کی ناقدری تک لے آتی ہے ۔
کیونکہ انسان کا دل ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتا ہے یا تو مثبت سوچ سوچے گا یا منفی ۔ ہر وقت محرومیوں کو سوچنے والا انسان نعمتوں کی لذت اور پر خلوص رشتے کھو دیتا ہے کیونکہ وہ ماضی میں جیتا ہے اور حال میں جینا اسکی منفی سوچ کی بدولت اسے مزید اپنوں سے متنفر کرتی ہے ۔ ایسا انسان اپنے گرد دوسری نعمتیں دیکھنے کے قابل نہیں رہتا ۔
دوسری طرف اس کے ایمان کا نقصان ہوتا ہے اسے لگتا ہے جب میری اتنے خلوص سے مانگی دعا قبول نہیں ہوئی تو میں رب کو کیوں پکاروں ؟ کس لیے نماز پڑھوں ؟پھر انسان اللّٰہ کے باقی احکامات کو بھی نہ ماننے کا جواز مل جاتا ہے ۔ جب نوبت یہاں تک آجائے اور انسان نہ پلٹے تو دل پہ مہریں لگنا شروع ہو جاتی ہیں وہ معاشرے میں ایک ڈھیٹ انسان بن جاتا ہے اگر کوئی دوسرا اس کے فائدے کی بات کرے تب بھی وہ ضد میں آکر انکار کرتا ہے اور بالآخر اس کی طبیعت میں ہر چھوٹی بڑی بات پر over react کرنا شامل ہو جاتا ہے ۔وہ ہر اس جگہ over react کرتا ہے جہاں اسے لگتا ہے کہ اسکی ذات کی نفی کی جا رہی ہے اور یہ انجام اسے شدت پسند انسان بنا دیتا ہے ۔
: شدت پسندانہ سوچ کا نتیجہ
انسان بھری محفل میں بھی اکیلا رہ جاتا ہے ۔وہ اپنی محرومیوں کو سوچ کر مسلسل ذہنی اذیت سے گزرتا ہے اور ناشکرا انسان بن کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے ۔
:شدت پسندی کا علاج
اگر انتہا پسندی کفر ہے تو کفر کا کا علاج “ایمان” میں ہے۔صرف ایک قبول کرنے کرنے کا مادہ ۔جو کمی خود میں ہے اسے قبول کرلیں اور اس پر reaction دینے کی بجائے اپنی اصلاح پر دھیان دیں
اگر کوئی مرتبہ ، محبت نہیں ملی یا دعا قبول ہ نہیں ہوئی تو جان لو ، اگر آپ نے موجودہ حالات کو قبول کر کے اس خیال کے پیشِ نظر شکر کیا کہ وہ بہتر لے کر بہترین سے نوازتا ہے تو اللّٰہ کا ایسے بندے سے وعدہ ہے ۔
سورہ العنکبوت آخری آیت
” وہ لوگ جو میرے رستے میں (مشکلات کے باوجود) کوشش کریں تو انہیں ہم ضرور اپنا رستہ دیکھائیں گے”
https://youtu.be/VXHD6KwA8Hg